وہ افغان جس نے ایک امریکی فوجی کی جان بچائی

 


2001 کے بعد جب امریکہ نے افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ کا آغاز کیا، تو مشرقی افغانستان کے پہاڑی علاقے، خاص طور پر کنڑ اور نورستان، خطرناک ترین جنگی زون بن گئے۔ یہی وہ علاقے ہیں جہاں پشتون قبائل رہتے ہیں، جو صدیوں سے اپنی آزادی، غیرت اور مہمان نوازی کے لیے مشہور ہیں۔

جون 2005 میں، امریکی نیوی سیلز نے ایک خفیہ مشن شروع کیا جسے "آپریشن ریڈ ونگز" کہا گیا۔ مقصد تھا ایک خطرناک طالبان کمانڈر احمد شاہ کو گرفتار یا ختم کرنا۔

چار نیوی سیلز پہاڑوں میں چھپ گئے: مارکس لٹریل، مائیکل مرفی، میتھیو ایکسل سن، ڈینی ڈیٹز

یہ چاروں ایک دور دراز پہاڑی علاقے میں تھے جب کچھ مقامی چرواہوں نے انہیں دیکھ لیا۔  ٹیم نے ان چرواہوں کو جانے دیا اور چند گھنٹوں میں ان پر طالبان کا حملہ ہو گیا۔

اس لڑائی میں تین امریکی فوجی مارے گئے۔ صرف مارکس لٹریل زندہ بچا، شدید زخمی، گولیوں سے چھلنی، اور دشمن کے علاقے میں تنہا۔

شدید زخمی مارکس لٹریل پہاڑوں میں کئی دن تک رینگتے رہے۔ وہ پتے اور بارش کا پانی پی کر زندہ رہے۔ آخرکار انہیں ایک افغان مقامی باشندے محمد گلاب نے پایا۔ گلاب ایک سادہ انسان تھے، جو پشتون قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ پشتونوں کے پشتونوالی کے اصولوں کے مطابق، وہ ہر مہمان، خواہ دشمن ہی کیوں نہ ہو، کو پناہ دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

محمد گلاب نے مارکس لٹریل کو اپنے گھر لے جا کر چھپایا اور ان کا علاج کیا۔ انہوں نے طالبان کے دباؤ اور خطرات کے باوجود لٹریل کو دشمن کے حوالے نہیں کیا۔ طالبان نے گلاب کو دھمکیاں دیں اور بڑی رقم و دیگر فوائد کی پیشکش بھی کی، مگر گلاب نے انکار کر دیا۔

اس رات لٹریل خوف میں مبتلا تھا۔ گلاب نے یاد کرتے ہوئے کہا:

"اسے لگا کہ شاید ہم اسے مارنے لے جا رہے ہیں۔"

لیکن گلاب اور اس کے خاندان نے اسے تحفظ دیا۔ انہوں نے ایک پیغام امریکی فوج کو پہاڑوں کے پار بھیجا، جو قمیض کی سلائی میں چھپا کر بھیجا گیا تھا۔ چار دن بعد امریکی فوجی پہنچے اور لٹریل کے ساتھ ساتھ گلاب کو بھی وہاں سے نکالا۔

امریکی فوجی اڈے پر، لٹریل نے گلاب کو 200,000 ڈالر کی پیشکش کی تاکہ وہ نئی زندگی شروع کر سکے۔ لیکن گلاب نے وہ رقم لینے سے انکار کر دیا۔

"میں نے اس کی مدد کسی انعام کے لیے نہیں کی،" اس نے کہا۔

مگر اس کے فیصلے کی قیمت جلد ہی اسے ادا کرنی پڑی۔

تقریباً دو سال بعد، گلاب کو اپنے گاؤں سبرائے سے ہجرت کرنی پڑی۔ طالبان مسلسل اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ وہ اپنی بیوی اور چھ بچوں کے ساتھ اسعد آباد آ گیا، جہاں امریکی فوج نے اسے ایک تعمیراتی مزدور کی نوکری دی، جس کی تنخواہ 280 ڈالر ماہانہ تھی۔ یہ رقم بہت زیادہ نہ تھی، مگر گزارا ہو رہا تھا۔

پھر ایک نیا دھچکا لگا۔ اپریل 2007 میں امریکی فوج نے گلاب کو بغیر کسی وضاحت کے گرفتار کر لیا۔ اسے پانچ دن تک پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑا۔

 

"انہوں نے میرے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈالیں، سر ڈھانپا اور کہا کہ میں نے پاکستان کے لوگوں سے ملاقات کی ہے۔"

یہ گرفتاری اس کے لیے شدید شرمندگی کا باعث بنی۔ اسے اس کے بعد فوجی اڈے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔

"اب میں صرف تنخواہ لینے کے لیے دروازے تک جا سکتا ہوں۔"

رزق ختم ہو گیا، طالبان ہر جانب سے حملہ کرنے لگے۔ اس کا گھر جلایا گیا، کزن قتل ہوا، خاندان بار بار منتقل ہوتا رہا۔ 2014 میں امریکی وکیل مائیکل وائلڈز نے اس کی پناہ کی درخواست دائر کی ۔ گلاب اور اُس کی فیملی پہلے کسی تیسرے ملک چھپے، پھر اس کی درخواست پر غور شروع ہوا، لیکن طویل انتظار اور بیوروکریسی نے اس کا حوصلہ توڑ دیا۔ 2021 تک وہ افغانستان نہ رہا، پناہ گزین کے طور پر کسی ملک میں وقت بتا رہا تھا ۔

 

آج، 2025 تک، گلاب امریکہ میں ہیں۔ اس کے وکیل وائلڈز اور مارکس لٹریل نے اس کی مدد کی تاکہ اسے گرین کارڈ یا مستقل پناہ مل جائے ۔ لٹریل نے گلاب کو بارہا ٹیکساس کے اپنے رینچ پر بلایا، وہاں بندوق بازی، کھانا، کھیتیں، اور گفتگو میں انہوں نے بھائی جیسا رشتہ قائم کیا ۔ اگرچہ زبان مشترک نہیں، مگر زندگی کے کشمکش نے انہیں رشتہ دار بنا دیا۔


Comments

Popular posts from this blog

سلطنت عثمانیہ کی پوری تاریخ

North Korea's 34 Rules That’ll Scare You